سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،اترپردیش ،لکھنؤ
یہ خیالات دارالعلوم دیوبند کے نصاب تعلیم کے مدنظر ظاہر کئے گئے ہیں
سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،اترپردیش ،لکھنؤ
دینی مدرسوں کے ذمہ دار علماء کرام توجہ فرمائیں ۔
کیا آپ اس بات کو پسندکرینگے کہ آپ کے مدرسے سے پڑھ کر نکلنے والے طالب علم کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ۔
اس ملک کا شہری ہو نے کے ناطے اس کے بنیادی حقوق کیا کیا ہیں ۔
اس ملک پر اس کے آبأ واجداد نے کتنی مدت حکومت کی اور اس سرزمین کو کیا کیا تحفے عطا کئے ۔
اگر آپ کو پولس یا کوئی دیگر سرکاری محکمہ ناجائز پریشان کرتا ہے تو آپ کہاں کہاں اور کیوں کر اُس کے خلاف نالش کر سکتے ہیں ۔
سرکاری افسران اور سرکاری محکموں سے آپ اپنے حقوق کیسے حاصل کر سکتے ہیں ۔
کن کن دفعات کے تحت درج ہو نے والے مقدمات کی کیا نوعیت ہے اور ان سے کیسے مقابلہ کیا جا ئے ۔ اور کیا آپ پسند کرینگے کہ
آپ کے مدرسے کا فارغ التحصیل اپنی تقاریر اور روزمرہ کی بول چال میں ہندی اور انگریزی کے ان الفاظ کا غلط تلفظ کرے جو نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری زبان میں در آئے ہیں ؟
تو پھر آج ہی اپنے مدرسے کا الحاق کیجئے ’’سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،لکھنؤ‘‘ سے جو آب کو مہیا کراتا ہے ایسا نصاب تعلیم جس کے (خارجی اوقات میں ) معمولی سے مطالعے سے مذکورہ صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے ۔
’’سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،لکھنؤ‘‘مذکورہ نصاب تعلیم پر موقوف ’’ہائی اسکول ‘‘اور ’’انٹر میڈئیٹ‘‘ کے امتحانات اردو ذریعۂ تعلیم سے منعقد کراتا ہے ،جس سے آپ کے طالب علم میں مذکورہ صلاحیتیں پیدا ہو سکتی ہیں ،امتحان کے بعد طالب علم کو ’’ہائی اسکول ‘‘ اور ’’انٹر میڈئیٹ ‘‘ کی اُسی طرح کی اسناد جا ری کی جا تی ہیں جیسی اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز کے فارغین کو ملتی ہیں ،یہ نصاب تعلیم سرکاری اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز کے نصاب تعلیم سے کلیہ طور پر ہم آہنگ ہے ،تاکہ ہمارے فارغین کسی طرح کے احساس کمتری کا شکار نہ رہیں ،بورڈ سے الحاق کے بعد آپ کے ادارے کو نصابی کتا بیں مفت فراہم کی جا تی ہیں ۔
ذاتی طور پر کوئی بھی طالب علم ،مین آفس لکھنؤ کو بائیس سو روپئے کا بینک ڈرافٹ جو ’’سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ‘‘ سے نام سے بنوا یا گیا ہو ،بھیج کر اپنا اندراج کرا سکتا ہے ،فیس وصول ہو نے کے بعد نصابی کتابیں طالب علم کے پتے پر بھیج دی جائینگی ،نصاب تعلیم کی تیاری کے بعد کسی بھی قریبی سینٹر پر جو طالب علم کی حسب خواہش منتخب کیا گیا ہو ،امتحان دینا ہوگا ،امتحان کے بعد اسناد امید وار کے پتے پر بھیجی جائینگی۔
ہائی اسکول کے امتحان میں چھ اور انٹر میڈئیٹ کے امتحان میں پانچ مضامین ہو تے ہیں ،ان امتحانات کی اہمیت وافادیت وہی ہے جو سرکاری اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز کے امتحانات کی ہے ،اگر ہمارے بورڈ کا کوئی فارغ طالب علم آگے تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہے تو یونیورسٹیز کے گریجویشن کورسیز میں ڈاخلہ لینے میں بورڈ اس کی مدد کریگا ۔
مین آفس کا پتہ یہ ہے ۔ سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،۸ /یونیورسل کامپلیکس ،فرسٹ فلور ،لال باغ لکھن�ؤ ۔فون0522-2233944
ارباب مدارس علماء کرام کے لئے کچھ سوچنے کی باتیں
زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے ،نئے تقاضے اور چیلنجز سامنے ہے ،ملکی اور عالمی سطح پر جو تبدیلیا ں ہو رہی ہیں انہیں سمجھ کر ان کا مقابلہ کر نے کی ضرورت ہے ،ماضی قریب میں مدرسوں کے تئیں منفی سوچ سامنے آئی ہے،انہیں روایت پسند اور دقیانوسی سمجھا جا رہا ہے ان پر الزام ہے کہ وہ دنیا سے بے خبر الگ تھلگ زندگی جیتے ہیں ،یقیناًیہ سوچ غلط ہے لیکن ہم کو اپنا محاسبہ کر نے کی بھی ضرورت ہے کیوں کہ حدیث شریف میں مومن کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ،المومن مَن یَکونَ مُتعار،فا بِزَمانہ،یعنی مومن وہ ہے جو اپنے زمانے کے حالات سے باخبر ہو ،علمأ نے صدا سے ہی ملی قیادت کاصحیح حق ادا کیا ہے ،ملک کی آزادی میں علمأ کے کردارکو بھلایا نہیں جا سکتا ،آج پھر ضرورت ہے کہ مدرسوں سے ایسے نونہالوں کی کھیپ پر کھیپ تیار ہو جو اس دنیا کے قدم سے قدم ملا کر نہیں اس سے دس قدم آگے چلتے ہوئے قومی رہنمائی کا کام انجام دے سکیں ،اس کام کے لئے اہل مدارس کو ،تھوڑی سی حرکت عمل کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اپنے طلبہ کو اس سلسلۂ تعلیم سے واقف کرایا جا ئے جسے اہل دنیا ’’مین اِسٹریم ‘‘( مکھیہ دھارا) کہتی ہے اور مدارس کو اس سے کٹے ہو نے کا طعنہ دیتی ہے اور اس سے جڑ کر وہ خود کو تعلیم کے میدان کا بڑا تیس مار خاں سمجھتی ہے ، اوروہ صرف ہائی اسکول اور انٹرمیڈئیٹ کی تعلیم ہے جو آپ کے لئے آپ ہی کے مدرسے میں بنا کسی نصاب تعلیم میں تبدیلی کئے محض مختصر سی جز وقتی تیاری پر آپ کو مہیا کرا رہا ہے ،’’سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،لکھنؤ‘‘جو معتبر علما کی سرپرستی میں مدرسوں کے طلبہ کو مین اسٹریم سے جوڑنے کا کام کر رہا ہے ،آپ بھی اس سے اپنے مدرسے کا الحاق کرا کر اپنے نونہالوں کو بہتر مستقبل فراہم کیجئے تاکہ مدرسوں سے پڑھ کر نکلنے والے ملت کے یہ فرزند خود کوکسی سے کم تر محسوس نہ کریں ،مذکورہ بورڈ ہائی اسکول اور انٹرمیڈئیٹ کے امتحانات بزبان اردو مع اختیاری مضامین ہندی؍انگریزی انہیں مضامین کے ساتھ منعقد کراتا ہے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جا تے ہیں ،تیاری کے لئے کتب بلا معاوضہ مہیا کرائی جا تی ہیں ،مزید معلومات کے لئے رابطہ کریں ۔:۔ سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،۸/ یونیورسل کامپلیکس ،فرسٹ فلور ،لال باغ لکھن�ؤ،فون،فیکس0522.2233944
صلاحیتیں مختلف ہو تی ہیں
فی زمانہ مسلم بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے ،مدارس کے ذمہ داروں کو آخر یہ کیا ضد ہے کہ وہ ان تمام ہی بچوں کو صرف دو رکعت کا امام ہی دیکھنا چاہتے ہیں ،آخر انہیں یہ حق کیوں نہ ملے کہ وہ بھی اگر چاہیں تو مین اسٹریم سے جڑ کر ملک اور قوم کی خدمت انجام دیں ،کیوں نہ وہ بھی آئی ،اے ،ایس ،اور پی ،سی، ایس ،جیسے مقابلہ جاتی امتحانات میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا کر، ڈی ،ایم اور ایس ،ڈی ،ایم وغیرہ اونچے معیار کے افسران بنیں ایک زمانہ تھا جب مدرسوں کی تعداد بھی کم تھی اور کم تعداد میں طلبہ مدرسوں کا رخ کرتے تھے اس دور میں یہ نظریہ غنیمت تھا کہ مدرسے سے فراغت کے بعد طلبہ تعلیم تعلم وامامت کی جانب ہی متوجہ ہوں،لیکن اب حالات بدل گئے ہیں ہمارے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں مدرسے ہیں جہاں کروڑوں طلبہ زیر تعلیم ہیں ہمارے یہاں روز گار کے جس طرح کے مسائل ہیں ان کے مدنظر اب اس پر غور کیا جانا چاہئے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں طلباء میں وہ افراد جو تعلیم تعلم اور امامت وغیرہ کی بہتر خدمات انجام دینے کے قابل نہ ہوں، ان کے لئے مدرسوں کی روایتی ڈگر سے ہٹے بغیر اگر کچھ نئے دروازے کھل سکیں تو شاید یہ بھی قوم وملت اور دین کی بڑی خدمت ہوگی۔
صلاحیتیں مختلف ہو تی ہیں ،ممکن ہے کہ جو طالب علم شیخ الاسلام نہ بن سکے وہ امام الہند بن جائے ،مدرسوں کے ایسے طلبہ کے لئے ’’سیکینڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،اترپردیش ‘‘اردو میڈیم سے ’’ہائی اسکول‘‘اور’’ انٹر میڈئیٹ ‘‘کے امتحانات منعقد کراتا ہے ،جن کو پاس کر نے کے بعد طالب علم ملک کی مختلف یونیورسیٹیز سے گریجویشن کر کے ،آئی ،اے ،ایس ،پی ،سی ،ایس ،بی ایڈ ،ایم ایڈ ،نیٹ وغیرہ کی تیاری کر سکتا ہے اور عصری میدان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا سکتا ہے ۔
اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے نمناک (علامہ اقبال)
اس میں شک نہیں کہ علمأ کرام کی جماعت سے وہ عبقری شخصیات ابھریں جنہوں نے ملی قیادت کی صحیح رہنمائی کا کام انجام دیا ،یہ کیا کم ہے کہ آزادی کے بعد انہوں نے ملک بھر میں مدارس کا جال بچھا کر بر صغیر میں زوال پذیر اسلامی تشخص کو محفوظ کر دیا ،ابتدأ میں کچھ مشہور تعلیمی اداروں کو بنیاد ڈالی گئی ،جہاں طلبہ کی ایک مخصوص تعداد حصول تعلیم کے بعدامت میں دینی رہنمائی کے فرائض انجام دیتی رہی ،پھر دیکھتے ہی دیکھتے مدرسوں کی تعداد بڑھ گئی اور ملت کے نونہالوں کی ایک بڑی تعداد علمی تشنگی بجھا نے کے لئے ان مدرسوں کا رخ کر نے لگی ،طلبہ کی بڑھتی تعداد کے ساتھ تعلیم کے گرتے معیار کے نتیجہ میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ سیکڑوں کی تعداد میں فارغین میں سے دو چار فیصد ہی علمی ،دینی ،ملی ،فکری شعور لے کر نکلتے ہیں ،باقی نوّے ،پچانوے فیصد ایسے افراد کی بھیڑ ہو تی ہے جو بقول علامہ اقبال’’ کشتۂ سلطانی ،ملائیت و پیری‘‘ کا مصداق ہوتے ہیں ،فراغت کے بعد جب ان کو روزگار کا مسئلہ درپیش ہو تا ہے تو وہ اُسی میدان میں جہاں کی انہوں نے تاعمر سواری کی ہے( دینی خدمت کے لئے کم حلِّ مسئلۂ روزگار کے لئے زیادہ )کسی نہ کسی طرح سے روزگار تلاش لیتے ہیں اور بسا اوقات دینی خدمت کے مقابلے رسوائی کا سبب بھی بن جا تے ہیں ، کہیں اسی کے مد نظر تو شاعر مشرق علامہ اقبال نے یہ نہیں کہا تھا کہ ’’اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے نمناک ‘‘لہٰذا ایسے افراد جن کا فطری رجحان کارہائے مدارس کے مقابلے تجارت یا ملازمت کی جانب ہے جس کے لئے عصری تعلیم ضروری ہو تی ہے،ایسے طلبہ اگر مدرسوں سے ہی عصری تعلیم سے آراستہ ہو کر نکلیں تو امید کی جا نی چاہئے کہ ان کی عملی زندگی میں مدرسوں میں حاصل کی گئی دینی تعلیم قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرے گی اور اسلامی ماحول میں وہ ملک وقوم کی بہتر خدمت انجام دے سکیں گے۔
کیا یہ دینی خدمت نہیں ؟
عہد حاضر میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے ،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں ،سوشل میڈیا پرمذہبِ اسلام کو بدنام کرنے والا مواد اَپ لوڈ کیا جاتا ہے ،انٹرنیٹ پر اسلام کے خلاف زہر اگلنے والی سائٹس موجود ہیں ،آئے دن پرنٹ میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں مضامین چھپتے ہیں ،مشہور بی جے پی لیڈر اَرُن شُوری نے اپنی ضخیم تصنیف ’’ فتووں کی دنیا ‘‘میں قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) دنیا کی بد ترین تصنیف قرار دیا ہے ،جَن سنکھ کے بانی لیڈر ’’بلراج مدھوک‘‘ نے اپنی تصنیف ،وِشؤ وَیاپی مسلم سمسّیا‘‘میں مسلمانوں کو ہندو بنا نے کا مشورہ دیا ہے،وغیرہ وغیرہ ، مگر افسواس کہ اہل مدارس میں سے کوئی انہیں جواب دینے کے لئے آگے نہ آسکا ،ایسے میں کیا یہ ضروری نہیں کہ ہمارے مدرسوں سے ہر سال دو چار بچے ایسے بھی فارغ ہوں جو عصری زبانوں (ہندی ،انگریری یا دیگر علاقائی زبان )میں مہارت نہیں تو کم ازکم ان کی تفہیم کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہوں تاکہ ان کی نگاہوں کے سامنے رہے کہ مخالف کیا سوچ ،بول اور لکھ رہا ہے اور وہ اسے اسی کے لہجے میں جواب دے سکیں ۔
مُلّا نہیں عالم پیدا کیجئے
یہ نہ سمجھئے کہ اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ دلی کے تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہیں ،اور دنیا بھر میں عربی ،فارسی زبانوں کا دور دورہ ہے ،جھٹک دیجئے سر سے ’’پدر من سلطان بود ‘‘ کا خواب ،ایسا کبھی تھا ،مگر وہ دور بہت دور جا چکا ،کیا آپ کو ابھی تک اس بات کا یقین نہیں آیا ؟ جس قدر جلد آپ اس بات کا یقین کرلیں اُتنا ہی بہتر ہو گا ،ایک عالم کے لئے ضروری ہے کہ وہ تسلیم شدہ عصری زبان کو سمجھے ،کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری مادری زبان میں نہ چاہتے ہو ئے بھی کتنے ہی انگریزی؍ہندی الفاظ در آئے ہیں ،آپ کو کیسا لگے گا جب ایک عالم دین اپنی تقریر یا روز مرُہ کی بول چال میں ایسے الفاظ کا غلط تلفظ ادا کرے، حدیث میں مومن کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات سے واقف ہو،یقیناََ عصری زبان اس کا بنیادی ذریعہ ہے ،دوسری چیز جو ایک عالم کے لئے ضروری ہے وہ یہ کہ انسانی سماج اور اس کی تاریخ پر بھی اس کی نظر ہو ،فی زمانہ تیسری چیز کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی تعلیم ہے ، یہ چند چیزیں وہ ہیں جن کا علم حاصل کئے بغیرکوئی عالم دین چاہے بزعم خود عالم ہو ،لیکن وقت کی نگاہوں میں وہ عالم (اسکالر) نہیں ہے ، ا ردو زبان مدارس کے طلبہ کا میڈیم ہوتا ہے جس میں وہ مہارت حاصل کر لیتے ہیں ، اردو ہی میں ’’سوشل سائنس‘‘ اور تاریخ ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے ،ہندی ، انتہائی آسان زبان ہے ،سیکنڈری سطح کی انگریزی میں معمولی محنت درکار ہے وہ بھی مدرسوں کے محنتی طلبہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، اس طرح کے پانچ یاچھ ضروری مضامین میں جز وقتی تیاری کراکر اگر مدرسوں کے طلبہ کو ہائی اسکول اور انٹر میڈئیٹ کا سرٹیفیکیٹ مہیا کرا دیا جا ئے تو کتنا اچھا رہے ۔
جُڑیے مین اسٹریم سے
مردم شماری کر نے والے آتے ہیں ،وہ آپ سے آپ کی تعلیمی لیاقت پوچھتے ہیں ،آپ حافظ ،قاری ،مولوی وغیرہ بتاتے ہیں، انہیں جو سرکاری دستاویز دی ہو ئی ہوتی ہے اس میں ان ڈگریوں کے کالم نہیں ہے ،وہاں جو کچھ ہو تا ہے وہ ہے ہائی اسکول ،انٹرمیڈئیٹ ،گریجویشن وغیرہ ہے،لہٰذا وہ آپ کی قابلیت کے کالم میںNILلکھ کر آگے بڑھ جا تا ہے ،اسی طرح ڈرائیوری لائسنس اور پاسپورٹ بنواتے وقت ہوتاہے ،پاسپورٹ وغیرہ کے نیٹ پر موجود فارم میں حافظ ،مولوی وغیرہ کے کالم نہیں دئے گئے ہیں لہٰذا وہاں پر بھی آپ کی قابلیت NILدکھا دی جا تی ہے اور آپ پڑھ لکھ کر بھی سرکاری کاغذات میں بے پڑھے لکھے ہو جا تے ہیں ،تو کیوں نہ آپ بھی جز وقتی خارجی سطح کی تیاری سے اپنے طلبہ کو ہائی اسکول ،انٹرمیڈئیٹ کے سرٹیفکیٹس دیں ،صرف چھ مضامین میں امتحان دے کر پاس ہو نا ہائی اسکول اور پانچ میں پاس ہونا انٹرمیڈئیٹ کہلا تا ہے ،ان مضامین میں تسلیم شدہ زبانیں ،اردو ،ہندی ،انگریزی ،عربی وغیرہ اور کمپیوٹر،شوسل سائنس ،تاریخ ،حساب وغیرہ ہو سکتے ہیں جو ہر انسان کی ضرورت ہے ۔
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے ( علامہ اقبال)
ہمارے مدرسوں میں ایک مضمون کے طور پر فلسفہ پڑھایا یا جا تا ہے ،اس میں ایک باب ’’طبیعیات‘‘ کا ہوتا ہے ’’طبیعیات ‘‘ وہی چیز ہے جسے جدید دور میں سائنس کی ایک شاخ فِزِکس (Physics)کے نام سے جانا جاتا ہے ،عجیب بات ہے کہ مدرسے کے طالب علم کو یہ تو معلوم ہے کہ اس نے ’’طبیعیات ‘‘ پڑھی ہے ،لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس نے ’’فِزِکس ‘‘بھی پڑھی ہے ۔
ایک بات اس سے بھی عجیب بلکہ عجیب در عجیب ہے ،وہ یہ کہ ’’طبیعیات ‘‘ میں ایک بحث ’’جُ�ئ لَا یَتَجَزّیٰ ‘‘کی آتی ہے جسے
باطل مانا گیا ہے ،ج�ۂ لا یتجزّیٰ وہی ہے جسے عصری زبان میں ایٹم (Atom )کہتے ہیں ،طبیعیات کے علمأ متأخرین نے ایٹم کے وجود کو تسلیم کیا ہے اور اُسے تسلیم کر نے بعد ہی ایٹم بم کا وجود ہوا اور اس کے استعمال سے جاپان کے دو بڑے شہر ایسے تباہ ہوئے کہ آج وہاں پر گھاس بھی نہیں اُگتی ،دورحاضر میں ساری دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاری کے خوف میں جی رہی ہے ،مگر افسوس صد افسوس ہمارے مدرسوں میں آج بھی یہی پڑھایا جا رہا ہے کہ جُ�ۂ لَا یَتَجَزّیٰ (Atom) کا وجود باطل ہے ،آخر مدرسے کے طالبعلم کو یہ حق کیوں نہ ملے کہ اسے بھی معلوم ہو کہ جُز لَا یَتَجَزّی کے بطلان پر صاحب ’’میبذی‘‘ کی پیش کردہ دو پختہ دلیلیں ،دلیلِ ملتقیٰ اور دلیل وَسط وطَرف ایٹم بم کی تباہ کاری میں بھسم ہو کر رہ گئیں ۔
حد سے زیادہ خود اعتمادی میں ہیں اہل مدارس
برا نہ مانے، راقم خود بھی آپ ہی کی بستی کا باسی ہے ،یہ فقیر بنیادی طورپر محض مدرسے کا ہی پروڈکٹ ہے، اس لئے بڑی بیباکی سے ایک بات کہنا چاہتا ہے ،وہ یہ کہ اہل مدارس حد سے زیادہ خود اعتمادی میں جی رہے ہیں ، کوئی انہیں سمجھا نا چاہتا ہے تو وہ اسے یا تو دنیا دار کہہ کر اس سے کنارہ کر لیتے ہیں اور یا اس پر یہ شک کر تے ہیں کہ وہ اہل مدارس کو ان کی روایتی ڈگر سے ہٹا کر عصری میدان میں کھینچ لانا چاہتا ہے ، جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ دینی تعلیم کے بنیادی عنصر کو برقرار رکھتے ہو ئے اس خارجی مواد کو وقت سے ہم آہنگ کر لیا جا ئے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے ،ایک ،مثال اور دیکھیں،ہمارے اکثر مدارس میں اردو کے نام پر مولانا اسماعیل میرٹھی کی ایک صدی قبل تصانیف پڑھائی جاتی ہے ،انہوں نے ایک سبق میں لکھا ہے کہ دو آنے سے ڈاکخانے میں کھاتا کھولا جا سکتا ہے ،جبکہ اس دور میں آنے کا ہی وجود نہیں رہا ،ایک کتاب’’ حیات الحیوانات‘‘ ہے،سات سو سال قبل تصنیف شدہ علامہ دمیری کی اس کتاب کو عربی مدارس میں بڑا اعتبار حاصل ہے ،یہ کتاب علم حیوانات (zoology )پر اپنے وقت کی بڑی مرکۃ الآرای کتاب تھی ،لیکن جدید علم حیوانات (zoology) جو جدید سائنس کی ایک اہم شاخ ہے اس نے علامہ دمیری کی سیکڑوں تحقیقات کو غلط کو ثابت کر دیا ہے ، یہ سب پڑھنے کے بعدہمارے یہاں ڈگری عالم (اسکالر) کی دی جا تی ہے ، یہ ڈگری ہی بذات خود ایک طالب علم کو اعتماد سے پُر کر دیتی ہے ،یہ مانا کہ مدرسے کا فارغ مذہبی امور کا عالم کل ہے ،لیکن کیا ان امور مذاہب کا اطلاق اسی دنیا میں نہیں ہونے والا ہے ؟ تو پھر یہ کیوں ضروری نہیں کہ ایک عالم اسقدر دنیا بھی جا نے جس قدر اُمور مذاہب کے اطلاق کے لئے ضروری ہے،ورنہ تو پھر وہی ہو گا کہ آپ مدرسوں میں بیٹھ کر جز لا یتجزیٰ کے وجود کو باطل گردانتے رہیں گے اور دنیا کہیں آگے نکل گئی ہو گی ،ہم نے جز لا یتجزیٰ کی ایک مثال پیش کی ہے ،اس کے علاوہ بھی کئی ایسی
مثالیں ہیں کہ دینی مدرسوں میں نادانستہ ،حقائق سے پرے کی تعلیم دی جا رہی ہے ،اور ایسی مثالیں صرف فلسفہ اور منطق میں ہی ہوں، ایسا بھی نہیں ہے ،بلکہ ان علوم میں بھی ہے جنہیں خالص مذہبی علم گردانہ جاتا ہے ،ایسی خامیوں کو نشان زد کر کے ان میں سدھار پیدا کر نے کی ضرورت ہے ،ورنہ قوم کے یہ شاہین بچے جنہیں آج اُلٹا پاٹھ پڑھا یا جا رہا ہے جب آنکھ کھولینگے تو وہ آپ کو معاف نہیں کرپائینگے ،یہ الگ بات کہ آپ ان کی آنکھیں ہی نہ کھلنے دیں،ذرا سوچیں کہ کیا ہم نادانستہ طور پر قدیم تُرکی اور اسلامی اسپین کے علماء کی ڈگر پر تو نہیں جا رہے ہیں ،لکھا ہے کہ ترکی میں ’’شیخ الاسلام ‘‘ نے تلوار کے مقابلے سنگین (بندوق) کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی ،اور بڑے حیلے اور حجت کے بعد پریس لگانے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی تھی کہ اس میں قرآن کریم اور دیگر مذہبی کتابیں نہ چھاپی جا ئیں،لہذا قبل اس کے کہ ہم کو قدیم ترکی جیسے حالات سے سابقہ ہو وقت کی ہوا کے رخ کو سمجھ کر اس سے مقابلہ کر نے کی صلاحیت پیدا کر لینی چاہئے۔
کوئی سنے نہ سنے وقت کی آواز
پکا رنے کی حدوں تک توہم پکار آئے
یہ کام الگ الگ اداروں کا نہیں ہے
خیال رہے کہ یہ کام الگ الگ اداروں کا نہیں بلکہ اس کے لئے ایک ایسا تعلیمی بورڈ ہو نا ضروری ہے جو اس پر نظر رکھے کہ زمانے میں کیا کیا تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں اور وہ اسی کے مد نظر ضروری تعلیمی نصاب مہیا کراتا رہے ،کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اسی کمی کے سبب ہم اپنے طلبہ کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے یہ خلاف واقعہ تعلیم فراہم کر رہے ہیں کہ ایٹم کا وجود نہیں ہو سکتا جبکہ اہل دنیا نے اس کا وجود تسلیم کر
کے ایٹم بم بنا ڈالا ، ہم آپ کو ایک ایسا ہی بورڈ مہیا کر رہے ہیں جو آپ کو دنیا میں واقع ہو نے والی تبدیلیوں سے رو برو کرا تا رہے گا ،نیز جدید دور کا وہ مواد آپ کے طلبہ کو مہیا کرائیگا جو ایک عالم دین کے لئے جاننا ضروری ہے ،آپ بھی ہم سے جڑ ئے اور اپنے مدرسے کے طلبہ کو اپنے بنیادی نصاب تعلیم میں کسی طرح کا پھیر بدل کئے بغیرمین اسٹریم سے جوڑ ئے ،آپ کو نہ تو اپنا نصاب تعلیم بدلنے کی ضرورت نہ اور کسی طرح کی دیگر تبدیلی کی ،ہائی اسکول کے چھ اور انٹرمیڈئیٹ کے پانچ آسان مضامین مدرسوں میں پڑھنے والے محنت کے عادی طلبہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ،ہفتے میں ایک دن اگر وہ صرف دو گھنٹے اس کام کے لئے نکال لیں تو منزل بہت آسان ہے ۔
عہد حاضر میں صحافت یا میڈیا
عہدحاضر میں میڈیا کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس نے اس دور میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اس پر غیروں کابطورِ خاص اسلام دشمنوں کا قبضہ ہے پرنٹ میڈیا ،الکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا جہاں دیکھئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے الزامات کا طوفان بدتمیزی بپاہے،جس کے ذریعہ اسلام کو بدنام کرکے اس کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے،صحافت میڈیا کا باب اول ہے، ہم نے اپنے بورڈ کے تحت بذریعہ اردو ہندوستانی زبان کی صحافت کا ایک سالہ کورس شروع کیا، اس میدان میں مدرسے کے طلباء آئینگے تو وہ اسلام کا بہتر دفاع کرسکیں گے آپ بھی صحافت کے اس نصاب تعلیم سے استفادہ کرکے میڈیا میں اپنی موجودگی درج کراسکتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کی بہتر خدمت کر کے ساتھ ساتھ اچھا روز گار بھی مہیا کرسکتے ہیں،عملی مشق کے لئے اس ادارے کی جانب سے اردو اور ہندی میں دو الگ الگ اخبارات جا ری کئے گئے ہیں ۔
کیا آپ اس بورڈ سے جڑ نا چاہیں گے ؟
’’سیکینڈری بورڈ آف مدرسہ ایجو کیشن ‘‘کانسٹی ٹیوشن آف انڈیا کی دفعہ ۲۹؍۳۰ کے تحت قائم ایک خود مختار ادارہ ہے جو نہ تو سرکار سے کسی طرح کی ایڈ حاصل کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کا سرکاری دباؤ قبول کرتا ہے ، بورڈ کا مین آفس لکھنؤ میں ہے جس کا اپنا ذاتی دفتر ہے جس کو’’ مدرسہ تعلیمی بورڈ ‘‘کے کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے ، اس سے جڑ کر آپ کے ادارے میں کسی بھی طرح کا سرکاری عمل دخل نہیں ہوگا ،اور آپ کی خود مختاری کسی بھی طرح متأثر نہیں ہوگی ،اس سے الحاق کے لئے آپ کو کچھ ضروری خانہ پوری کرنی ہو گی جس کے بعد ہائی اسکول کے نصاب پر موقوف کتابوں کے چند سیٹ ادارے کو بھیجے جا ئینگے جن میں اردو ،ہندی ،انگریزی ،اور سوشل سائنس کے مضامین کی کتابیں این ،آئی ،او ،ایس کے طرز کی ہونگیں ،ایک کتاب خالص تاریخ کے موضوع پر ہوگی ،جس میں برصغیر پر مسلم دور حکومت کی بطور خاص تفصیل درج ہے ،ایک کتاب کمپیو ٹر کی معلومات پر بطور خاص اِن پیج اردو شامل ہو گی ،نیز کچھ تعلیمی مواد ایسا ہوگا جس میں ،آئین ہند کے کچھ مخصوص بنیادی قوانین ،تعزیرات ہند کی مختلف دفعات ،بحیثیت ایک شہری آپ کے بنیادی حقوق کی تفصیل کے ساتھ ساتھ تھانہ ،کورٹ ،کچہری سے متعلق معلومات ،عدلیہ ،مقننہ ،منتظمہ اور میڈیا کی معلومات آپ کے طلبہ کو مہیا کرائے گا ،اس کے علاوہ دعوتی نقطۂ نظر سے ہندوستانی مذاہب کا تقابلی مطالعہ ،اورعہد حاضر میں اسلام پر اٹھا ئے جا نے والے سوالات کے جوابات کی مشق پر موقوف مواد بھی مہیا کیا جا ئیگا، سر دست صرف ان ہی مضامین میں ہائی اسکول اور انٹر میڈئیٹ کرایا جا رہا ہے ،آئندہ کے منصوبوں میں ،سائنس اور حساب کی تعلیم بھی شامل ہے ،الحاق کے لئے صرف وہی مدرسے رجوع کریں جن کے پاس ہائی اسکول کے معیار کی بلڈنگ ہو نے ساتھ ساتھ کم ازکم درجہ چہارم عربی تک کی تعلیم ہے ،امتحانات سال میں دو بار منعقد کرائے جا تے ہیں ،الحاق کو باقی رکھنے کے لئے ہر سال کم ازکم پانچ طلبہ کے فارم موصول ہونا ضروری ہے ،جس ادارے کی جانب سے کم ازکم پچاس فارم بھرجا ئینگے اس کو بورڈ کی جانب سے ایک کمپیوٹر دینے کے ساتھ ساتھ جز وقتی کمپیوٹر ایکسپرٹ مہیا کیا جا ئیگا تاکہ وہ مدرسے میں چند دنوں قیام کر کے طلبہ کو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی معلومات دے سکے اور نیٹ و میڈیا کی دنیا میں اسلام کے خلاف ہو رہی سازشوں کو بے نقاب کر نے کی ٹریننگ دے سکے ۔
اپنی تاریخ کم سے کم اپنے بچوں کو ہی پڑھائیے
کیا آپ جا نتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں دس سال پہلے تک چھٹی ،ساتویں ،اور آٹھویں تینوں کلاس میں جو تاریخ پڑھائی جا تی تھی ،وہ صرف اور صرف دنیا میں مسلمانوں کے اقتدار کی تاریخ تھی ،جسے اب محض آٹھویں کلاس کے صرف ایک سبق میں سمیٹ دیا گیا ہے ،یہی حال جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کو لے کر ہے ،سرکار کی نگرانی میں تیار ہونے والے نصاب تعلیم سے مسلمانوں کے کردار کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ،ایسے میں کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اپنے آبأ و اجداد کی تاریخ کو ہم کم ازکم اپنے طلبہ کو تو پڑھائیں ، یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ کسی بورڈ سے جڑ نا ہی ہے تو کیوں نہ سرکار ی مدرسہ بورڈ یا اوپن اسکولنگ بورڈ سے جڑا جا ئے ،لیکن وہاں آپ کو نہ تو اپنی تاریخ ملے گی اور نہ اسلامیات سے ہم آہنگ دیگر جدید مواد ہوگا ،بلکہ اس کا تیار کردہ مواد یا تو دہریت پر مبنی ہو اور یا سنگھی منصوبے کی تکمیل کر نا والا بھگوا رنگ میں ڈوبا ہوا ہو گا ،ساتھ ہی آپ کی آزادی کو الگ متأثر کرے گا ،لہٰذا یہ ضروری ہو جا تا ہے کہ اسلامی مدرسوں کا ایک بااختیار تعلیمی بورڈ ہو جو سرکردہ علمأ دین کی نگرانی میں کام کرے اور رعصری تبدیلیوں پر نظر رکھے اور اور ضروری جدید تعلیمی مواد متعلقہ مدارس کو فراہم کراتا رہے ، تو پھر آج ہی مندرجہ ذیل پتے پر رابطہ کر کے اپنے ادارے کا رجسٹریشن کرائیں۔
سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،۸ یونیورسل کامپلیکس ،فرسٹ فلور ،لال باغ لکھن�ؤ۔فون،فیکس 0522-2233944 8392819216 -7409062400 -7060758823 - 9359351921 Mobile Number:
تأثرات
مفتی محمد اکرام قاسمی
یہ خیالات ڈاکٹر محمد اسلم قاسمی کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہیں ،محترم ڈاکٹر صاحب نے دینی وعصری درسگاہوں سے بھر پور اِستفادہ کیا ہے ،اُنہیں دونوں طرح کی درسگاہوں کو بہت قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ہے ،دونوں جانب نہ مکمل خوبیاں ہیں اور نہ ہی مکمل خرابیاں ،دونوں طرف کچھ خامیاں ہیں تو خوبیاں بھی ہیں ،ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہی نقطۂ نظر رہا ہے کہ ’’خُذ مَا صَفا وَدَع مَا کَدِر‘‘کے مطابق خوبیوں کو اپنا کر ہی ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ،موصوف کے قدرے تیکھے لب ولہجہ پر نہ جا ئیں کہ اسمیں بھی قومی فلاح وبہبود کا جذبہ مخفی ہوتا ہے ،اسلئے’’ اِنّما الاَعمَالُ بِالنیات ‘‘کا اعتبار کرتے ہو ئے موصوف کے خیر خواہانہ مشورے پر غور کریں اور ’’مدرسہ تعلیمی بورڈ ‘‘سے الحاق کے متعلق مثبت جواب دیتے ہو ئے ایک صالح اور مفید معاشرے کی تشکیل میں حصہ لیں ،بلحاظ ’’اِستِبدال بِالاِصلاح ‘‘اپنی علمی رائے بھی دیں ،نصاب تعلیم کے متعلق غور کر کے فیصلہ کریں اگر ہو سکے تو ’’مدرسہ تعلیمی بورڈ ‘‘ کے نصاب کو اپنے نصاب تعلیم کا حصہ بنائیں اور نظام الاوقات میں جگہ دیں ،اس لئے کہ ہمارے یہاں خارجی مطالعہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا تی ،اگر خارجی مطالعہ میں ہی رکھنا چاہیں تو بھی اس کے لئے وقت کی تعیین ضرور کردیں ۔
( مفتی )
محمد اکرام قاسمی
سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،اترپردیش ،لکھنؤ
دینی مدرسوں کے ذمہ دار علماء کرام توجہ فرمائیں ۔
کیا آپ اس بات کو پسندکرینگے کہ آپ کے مدرسے سے پڑھ کر نکلنے والے طالب علم کو یہ بھی معلوم نہ ہو کہ ۔
اس ملک کا شہری ہو نے کے ناطے اس کے بنیادی حقوق کیا کیا ہیں ۔
اس ملک پر اس کے آبأ واجداد نے کتنی مدت حکومت کی اور اس سرزمین کو کیا کیا تحفے عطا کئے ۔
اگر آپ کو پولس یا کوئی دیگر سرکاری محکمہ ناجائز پریشان کرتا ہے تو آپ کہاں کہاں اور کیوں کر اُس کے خلاف نالش کر سکتے ہیں ۔
سرکاری افسران اور سرکاری محکموں سے آپ اپنے حقوق کیسے حاصل کر سکتے ہیں ۔
کن کن دفعات کے تحت درج ہو نے والے مقدمات کی کیا نوعیت ہے اور ان سے کیسے مقابلہ کیا جا ئے ۔ اور کیا آپ پسند کرینگے کہ
آپ کے مدرسے کا فارغ التحصیل اپنی تقاریر اور روزمرہ کی بول چال میں ہندی اور انگریزی کے ان الفاظ کا غلط تلفظ کرے جو نہ چاہتے ہوئے بھی ہماری زبان میں در آئے ہیں ؟
تو پھر آج ہی اپنے مدرسے کا الحاق کیجئے ’’سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،لکھنؤ‘‘ سے جو آب کو مہیا کراتا ہے ایسا نصاب تعلیم جس کے (خارجی اوقات میں ) معمولی سے مطالعے سے مذکورہ صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے ۔
’’سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،لکھنؤ‘‘مذکورہ نصاب تعلیم پر موقوف ’’ہائی اسکول ‘‘اور ’’انٹر میڈئیٹ‘‘ کے امتحانات اردو ذریعۂ تعلیم سے منعقد کراتا ہے ،جس سے آپ کے طالب علم میں مذکورہ صلاحیتیں پیدا ہو سکتی ہیں ،امتحان کے بعد طالب علم کو ’’ہائی اسکول ‘‘ اور ’’انٹر میڈئیٹ ‘‘ کی اُسی طرح کی اسناد جا ری کی جا تی ہیں جیسی اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز کے فارغین کو ملتی ہیں ،یہ نصاب تعلیم سرکاری اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز کے نصاب تعلیم سے کلیہ طور پر ہم آہنگ ہے ،تاکہ ہمارے فارغین کسی طرح کے احساس کمتری کا شکار نہ رہیں ،بورڈ سے الحاق کے بعد آپ کے ادارے کو نصابی کتا بیں مفت فراہم کی جا تی ہیں ۔
ذاتی طور پر کوئی بھی طالب علم ،مین آفس لکھنؤ کو بائیس سو روپئے کا بینک ڈرافٹ جو ’’سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ‘‘ سے نام سے بنوا یا گیا ہو ،بھیج کر اپنا اندراج کرا سکتا ہے ،فیس وصول ہو نے کے بعد نصابی کتابیں طالب علم کے پتے پر بھیج دی جائینگی ،نصاب تعلیم کی تیاری کے بعد کسی بھی قریبی سینٹر پر جو طالب علم کی حسب خواہش منتخب کیا گیا ہو ،امتحان دینا ہوگا ،امتحان کے بعد اسناد امید وار کے پتے پر بھیجی جائینگی۔
ہائی اسکول کے امتحان میں چھ اور انٹر میڈئیٹ کے امتحان میں پانچ مضامین ہو تے ہیں ،ان امتحانات کی اہمیت وافادیت وہی ہے جو سرکاری اسکولوں ،کالجوں اور یونیورسٹیز کے امتحانات کی ہے ،اگر ہمارے بورڈ کا کوئی فارغ طالب علم آگے تعلیم جاری رکھنا چاہتا ہے تو یونیورسٹیز کے گریجویشن کورسیز میں ڈاخلہ لینے میں بورڈ اس کی مدد کریگا ۔
مین آفس کا پتہ یہ ہے ۔ سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،۸ /یونیورسل کامپلیکس ،فرسٹ فلور ،لال باغ لکھن�ؤ ۔فون0522-2233944
ارباب مدارس علماء کرام کے لئے کچھ سوچنے کی باتیں
زمانہ تیزی سے بدل رہا ہے ،نئے تقاضے اور چیلنجز سامنے ہے ،ملکی اور عالمی سطح پر جو تبدیلیا ں ہو رہی ہیں انہیں سمجھ کر ان کا مقابلہ کر نے کی ضرورت ہے ،ماضی قریب میں مدرسوں کے تئیں منفی سوچ سامنے آئی ہے،انہیں روایت پسند اور دقیانوسی سمجھا جا رہا ہے ان پر الزام ہے کہ وہ دنیا سے بے خبر الگ تھلگ زندگی جیتے ہیں ،یقیناًیہ سوچ غلط ہے لیکن ہم کو اپنا محاسبہ کر نے کی بھی ضرورت ہے کیوں کہ حدیث شریف میں مومن کی پہچان یہ بتائی گئی ہے کہ،المومن مَن یَکونَ مُتعار،فا بِزَمانہ،یعنی مومن وہ ہے جو اپنے زمانے کے حالات سے باخبر ہو ،علمأ نے صدا سے ہی ملی قیادت کاصحیح حق ادا کیا ہے ،ملک کی آزادی میں علمأ کے کردارکو بھلایا نہیں جا سکتا ،آج پھر ضرورت ہے کہ مدرسوں سے ایسے نونہالوں کی کھیپ پر کھیپ تیار ہو جو اس دنیا کے قدم سے قدم ملا کر نہیں اس سے دس قدم آگے چلتے ہوئے قومی رہنمائی کا کام انجام دے سکیں ،اس کام کے لئے اہل مدارس کو ،تھوڑی سی حرکت عمل کی ضرورت ہے وہ یہ کہ اپنے طلبہ کو اس سلسلۂ تعلیم سے واقف کرایا جا ئے جسے اہل دنیا ’’مین اِسٹریم ‘‘( مکھیہ دھارا) کہتی ہے اور مدارس کو اس سے کٹے ہو نے کا طعنہ دیتی ہے اور اس سے جڑ کر وہ خود کو تعلیم کے میدان کا بڑا تیس مار خاں سمجھتی ہے ، اوروہ صرف ہائی اسکول اور انٹرمیڈئیٹ کی تعلیم ہے جو آپ کے لئے آپ ہی کے مدرسے میں بنا کسی نصاب تعلیم میں تبدیلی کئے محض مختصر سی جز وقتی تیاری پر آپ کو مہیا کرا رہا ہے ،’’سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،لکھنؤ‘‘جو معتبر علما کی سرپرستی میں مدرسوں کے طلبہ کو مین اسٹریم سے جوڑنے کا کام کر رہا ہے ،آپ بھی اس سے اپنے مدرسے کا الحاق کرا کر اپنے نونہالوں کو بہتر مستقبل فراہم کیجئے تاکہ مدرسوں سے پڑھ کر نکلنے والے ملت کے یہ فرزند خود کوکسی سے کم تر محسوس نہ کریں ،مذکورہ بورڈ ہائی اسکول اور انٹرمیڈئیٹ کے امتحانات بزبان اردو مع اختیاری مضامین ہندی؍انگریزی انہیں مضامین کے ساتھ منعقد کراتا ہے جو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھائے جا تے ہیں ،تیاری کے لئے کتب بلا معاوضہ مہیا کرائی جا تی ہیں ،مزید معلومات کے لئے رابطہ کریں ۔:۔ سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،۸/ یونیورسل کامپلیکس ،فرسٹ فلور ،لال باغ لکھن�ؤ،فون،فیکس0522.2233944
صلاحیتیں مختلف ہو تی ہیں
فی زمانہ مسلم بچوں کی ایک بڑی تعداد مدرسوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے ،مدارس کے ذمہ داروں کو آخر یہ کیا ضد ہے کہ وہ ان تمام ہی بچوں کو صرف دو رکعت کا امام ہی دیکھنا چاہتے ہیں ،آخر انہیں یہ حق کیوں نہ ملے کہ وہ بھی اگر چاہیں تو مین اسٹریم سے جڑ کر ملک اور قوم کی خدمت انجام دیں ،کیوں نہ وہ بھی آئی ،اے ،ایس ،اور پی ،سی، ایس ،جیسے مقابلہ جاتی امتحانات میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا کر، ڈی ،ایم اور ایس ،ڈی ،ایم وغیرہ اونچے معیار کے افسران بنیں ایک زمانہ تھا جب مدرسوں کی تعداد بھی کم تھی اور کم تعداد میں طلبہ مدرسوں کا رخ کرتے تھے اس دور میں یہ نظریہ غنیمت تھا کہ مدرسے سے فراغت کے بعد طلبہ تعلیم تعلم وامامت کی جانب ہی متوجہ ہوں،لیکن اب حالات بدل گئے ہیں ہمارے ملک میں لاکھوں کی تعداد میں مدرسے ہیں جہاں کروڑوں طلبہ زیر تعلیم ہیں ہمارے یہاں روز گار کے جس طرح کے مسائل ہیں ان کے مدنظر اب اس پر غور کیا جانا چاہئے کہ دینی تعلیم حاصل کرنے والے لاکھوں طلباء میں وہ افراد جو تعلیم تعلم اور امامت وغیرہ کی بہتر خدمات انجام دینے کے قابل نہ ہوں، ان کے لئے مدرسوں کی روایتی ڈگر سے ہٹے بغیر اگر کچھ نئے دروازے کھل سکیں تو شاید یہ بھی قوم وملت اور دین کی بڑی خدمت ہوگی۔
صلاحیتیں مختلف ہو تی ہیں ،ممکن ہے کہ جو طالب علم شیخ الاسلام نہ بن سکے وہ امام الہند بن جائے ،مدرسوں کے ایسے طلبہ کے لئے ’’سیکینڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،اترپردیش ‘‘اردو میڈیم سے ’’ہائی اسکول‘‘اور’’ انٹر میڈئیٹ ‘‘کے امتحانات منعقد کراتا ہے ،جن کو پاس کر نے کے بعد طالب علم ملک کی مختلف یونیورسیٹیز سے گریجویشن کر کے ،آئی ،اے ،ایس ،پی ،سی ،ایس ،بی ایڈ ،ایم ایڈ ،نیٹ وغیرہ کی تیاری کر سکتا ہے اور عصری میدان میں اپنی قابلیت کے جوہر دکھا سکتا ہے ۔
اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے نمناک (علامہ اقبال)
اس میں شک نہیں کہ علمأ کرام کی جماعت سے وہ عبقری شخصیات ابھریں جنہوں نے ملی قیادت کی صحیح رہنمائی کا کام انجام دیا ،یہ کیا کم ہے کہ آزادی کے بعد انہوں نے ملک بھر میں مدارس کا جال بچھا کر بر صغیر میں زوال پذیر اسلامی تشخص کو محفوظ کر دیا ،ابتدأ میں کچھ مشہور تعلیمی اداروں کو بنیاد ڈالی گئی ،جہاں طلبہ کی ایک مخصوص تعداد حصول تعلیم کے بعدامت میں دینی رہنمائی کے فرائض انجام دیتی رہی ،پھر دیکھتے ہی دیکھتے مدرسوں کی تعداد بڑھ گئی اور ملت کے نونہالوں کی ایک بڑی تعداد علمی تشنگی بجھا نے کے لئے ان مدرسوں کا رخ کر نے لگی ،طلبہ کی بڑھتی تعداد کے ساتھ تعلیم کے گرتے معیار کے نتیجہ میں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ سیکڑوں کی تعداد میں فارغین میں سے دو چار فیصد ہی علمی ،دینی ،ملی ،فکری شعور لے کر نکلتے ہیں ،باقی نوّے ،پچانوے فیصد ایسے افراد کی بھیڑ ہو تی ہے جو بقول علامہ اقبال’’ کشتۂ سلطانی ،ملائیت و پیری‘‘ کا مصداق ہوتے ہیں ،فراغت کے بعد جب ان کو روزگار کا مسئلہ درپیش ہو تا ہے تو وہ اُسی میدان میں جہاں کی انہوں نے تاعمر سواری کی ہے( دینی خدمت کے لئے کم حلِّ مسئلۂ روزگار کے لئے زیادہ )کسی نہ کسی طرح سے روزگار تلاش لیتے ہیں اور بسا اوقات دینی خدمت کے مقابلے رسوائی کا سبب بھی بن جا تے ہیں ، کہیں اسی کے مد نظر تو شاعر مشرق علامہ اقبال نے یہ نہیں کہا تھا کہ ’’اٹھا میں مدرسہ اور خانقاہ سے نمناک ‘‘لہٰذا ایسے افراد جن کا فطری رجحان کارہائے مدارس کے مقابلے تجارت یا ملازمت کی جانب ہے جس کے لئے عصری تعلیم ضروری ہو تی ہے،ایسے طلبہ اگر مدرسوں سے ہی عصری تعلیم سے آراستہ ہو کر نکلیں تو امید کی جا نی چاہئے کہ ان کی عملی زندگی میں مدرسوں میں حاصل کی گئی دینی تعلیم قدم قدم پر ان کی رہنمائی کرے گی اور اسلامی ماحول میں وہ ملک وقوم کی بہتر خدمت انجام دے سکیں گے۔
کیا یہ دینی خدمت نہیں ؟
عہد حاضر میں اسلام کے خلاف پروپیگنڈے کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے ،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کتابیں لکھی جا رہی ہیں ،سوشل میڈیا پرمذہبِ اسلام کو بدنام کرنے والا مواد اَپ لوڈ کیا جاتا ہے ،انٹرنیٹ پر اسلام کے خلاف زہر اگلنے والی سائٹس موجود ہیں ،آئے دن پرنٹ میڈیا میں اسلام اور مسلمانوں کی مخالفت میں مضامین چھپتے ہیں ،مشہور بی جے پی لیڈر اَرُن شُوری نے اپنی ضخیم تصنیف ’’ فتووں کی دنیا ‘‘میں قرآن کریم کو (نعوذ باللہ) دنیا کی بد ترین تصنیف قرار دیا ہے ،جَن سنکھ کے بانی لیڈر ’’بلراج مدھوک‘‘ نے اپنی تصنیف ،وِشؤ وَیاپی مسلم سمسّیا‘‘میں مسلمانوں کو ہندو بنا نے کا مشورہ دیا ہے،وغیرہ وغیرہ ، مگر افسواس کہ اہل مدارس میں سے کوئی انہیں جواب دینے کے لئے آگے نہ آسکا ،ایسے میں کیا یہ ضروری نہیں کہ ہمارے مدرسوں سے ہر سال دو چار بچے ایسے بھی فارغ ہوں جو عصری زبانوں (ہندی ،انگریری یا دیگر علاقائی زبان )میں مہارت نہیں تو کم ازکم ان کی تفہیم کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہوں تاکہ ان کی نگاہوں کے سامنے رہے کہ مخالف کیا سوچ ،بول اور لکھ رہا ہے اور وہ اسے اسی کے لہجے میں جواب دے سکیں ۔
مُلّا نہیں عالم پیدا کیجئے
یہ نہ سمجھئے کہ اورنگزیب رحمۃ اللہ علیہ دلی کے تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہیں ،اور دنیا بھر میں عربی ،فارسی زبانوں کا دور دورہ ہے ،جھٹک دیجئے سر سے ’’پدر من سلطان بود ‘‘ کا خواب ،ایسا کبھی تھا ،مگر وہ دور بہت دور جا چکا ،کیا آپ کو ابھی تک اس بات کا یقین نہیں آیا ؟ جس قدر جلد آپ اس بات کا یقین کرلیں اُتنا ہی بہتر ہو گا ،ایک عالم کے لئے ضروری ہے کہ وہ تسلیم شدہ عصری زبان کو سمجھے ،کیا آپ جانتے ہیں کہ ہماری مادری زبان میں نہ چاہتے ہو ئے بھی کتنے ہی انگریزی؍ہندی الفاظ در آئے ہیں ،آپ کو کیسا لگے گا جب ایک عالم دین اپنی تقریر یا روز مرُہ کی بول چال میں ایسے الفاظ کا غلط تلفظ ادا کرے، حدیث میں مومن کی صفت یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ اپنے زمانے کے حالات سے واقف ہو،یقیناََ عصری زبان اس کا بنیادی ذریعہ ہے ،دوسری چیز جو ایک عالم کے لئے ضروری ہے وہ یہ کہ انسانی سماج اور اس کی تاریخ پر بھی اس کی نظر ہو ،فی زمانہ تیسری چیز کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی تعلیم ہے ، یہ چند چیزیں وہ ہیں جن کا علم حاصل کئے بغیرکوئی عالم دین چاہے بزعم خود عالم ہو ،لیکن وقت کی نگاہوں میں وہ عالم (اسکالر) نہیں ہے ، ا ردو زبان مدارس کے طلبہ کا میڈیم ہوتا ہے جس میں وہ مہارت حاصل کر لیتے ہیں ، اردو ہی میں ’’سوشل سائنس‘‘ اور تاریخ ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ہے ،ہندی ، انتہائی آسان زبان ہے ،سیکنڈری سطح کی انگریزی میں معمولی محنت درکار ہے وہ بھی مدرسوں کے محنتی طلبہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں، اس طرح کے پانچ یاچھ ضروری مضامین میں جز وقتی تیاری کراکر اگر مدرسوں کے طلبہ کو ہائی اسکول اور انٹر میڈئیٹ کا سرٹیفیکیٹ مہیا کرا دیا جا ئے تو کتنا اچھا رہے ۔
جُڑیے مین اسٹریم سے
مردم شماری کر نے والے آتے ہیں ،وہ آپ سے آپ کی تعلیمی لیاقت پوچھتے ہیں ،آپ حافظ ،قاری ،مولوی وغیرہ بتاتے ہیں، انہیں جو سرکاری دستاویز دی ہو ئی ہوتی ہے اس میں ان ڈگریوں کے کالم نہیں ہے ،وہاں جو کچھ ہو تا ہے وہ ہے ہائی اسکول ،انٹرمیڈئیٹ ،گریجویشن وغیرہ ہے،لہٰذا وہ آپ کی قابلیت کے کالم میںNILلکھ کر آگے بڑھ جا تا ہے ،اسی طرح ڈرائیوری لائسنس اور پاسپورٹ بنواتے وقت ہوتاہے ،پاسپورٹ وغیرہ کے نیٹ پر موجود فارم میں حافظ ،مولوی وغیرہ کے کالم نہیں دئے گئے ہیں لہٰذا وہاں پر بھی آپ کی قابلیت NILدکھا دی جا تی ہے اور آپ پڑھ لکھ کر بھی سرکاری کاغذات میں بے پڑھے لکھے ہو جا تے ہیں ،تو کیوں نہ آپ بھی جز وقتی خارجی سطح کی تیاری سے اپنے طلبہ کو ہائی اسکول ،انٹرمیڈئیٹ کے سرٹیفکیٹس دیں ،صرف چھ مضامین میں امتحان دے کر پاس ہو نا ہائی اسکول اور پانچ میں پاس ہونا انٹرمیڈئیٹ کہلا تا ہے ،ان مضامین میں تسلیم شدہ زبانیں ،اردو ،ہندی ،انگریزی ،عربی وغیرہ اور کمپیوٹر،شوسل سائنس ،تاریخ ،حساب وغیرہ ہو سکتے ہیں جو ہر انسان کی ضرورت ہے ۔
شکایت ہے مجھے یا رب خداوندانِ مکتب سے ( علامہ اقبال)
ہمارے مدرسوں میں ایک مضمون کے طور پر فلسفہ پڑھایا یا جا تا ہے ،اس میں ایک باب ’’طبیعیات‘‘ کا ہوتا ہے ’’طبیعیات ‘‘ وہی چیز ہے جسے جدید دور میں سائنس کی ایک شاخ فِزِکس (Physics)کے نام سے جانا جاتا ہے ،عجیب بات ہے کہ مدرسے کے طالب علم کو یہ تو معلوم ہے کہ اس نے ’’طبیعیات ‘‘ پڑھی ہے ،لیکن یہ معلوم نہیں کہ اس نے ’’فِزِکس ‘‘بھی پڑھی ہے ۔
ایک بات اس سے بھی عجیب بلکہ عجیب در عجیب ہے ،وہ یہ کہ ’’طبیعیات ‘‘ میں ایک بحث ’’جُ�ئ لَا یَتَجَزّیٰ ‘‘کی آتی ہے جسے
باطل مانا گیا ہے ،ج�ۂ لا یتجزّیٰ وہی ہے جسے عصری زبان میں ایٹم (Atom )کہتے ہیں ،طبیعیات کے علمأ متأخرین نے ایٹم کے وجود کو تسلیم کیا ہے اور اُسے تسلیم کر نے بعد ہی ایٹم بم کا وجود ہوا اور اس کے استعمال سے جاپان کے دو بڑے شہر ایسے تباہ ہوئے کہ آج وہاں پر گھاس بھی نہیں اُگتی ،دورحاضر میں ساری دنیا ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاری کے خوف میں جی رہی ہے ،مگر افسوس صد افسوس ہمارے مدرسوں میں آج بھی یہی پڑھایا جا رہا ہے کہ جُ�ۂ لَا یَتَجَزّیٰ (Atom) کا وجود باطل ہے ،آخر مدرسے کے طالبعلم کو یہ حق کیوں نہ ملے کہ اسے بھی معلوم ہو کہ جُز لَا یَتَجَزّی کے بطلان پر صاحب ’’میبذی‘‘ کی پیش کردہ دو پختہ دلیلیں ،دلیلِ ملتقیٰ اور دلیل وَسط وطَرف ایٹم بم کی تباہ کاری میں بھسم ہو کر رہ گئیں ۔
حد سے زیادہ خود اعتمادی میں ہیں اہل مدارس
برا نہ مانے، راقم خود بھی آپ ہی کی بستی کا باسی ہے ،یہ فقیر بنیادی طورپر محض مدرسے کا ہی پروڈکٹ ہے، اس لئے بڑی بیباکی سے ایک بات کہنا چاہتا ہے ،وہ یہ کہ اہل مدارس حد سے زیادہ خود اعتمادی میں جی رہے ہیں ، کوئی انہیں سمجھا نا چاہتا ہے تو وہ اسے یا تو دنیا دار کہہ کر اس سے کنارہ کر لیتے ہیں اور یا اس پر یہ شک کر تے ہیں کہ وہ اہل مدارس کو ان کی روایتی ڈگر سے ہٹا کر عصری میدان میں کھینچ لانا چاہتا ہے ، جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے بلکہ مقصد صرف یہ ہے کہ دینی تعلیم کے بنیادی عنصر کو برقرار رکھتے ہو ئے اس خارجی مواد کو وقت سے ہم آہنگ کر لیا جا ئے جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے ،ایک ،مثال اور دیکھیں،ہمارے اکثر مدارس میں اردو کے نام پر مولانا اسماعیل میرٹھی کی ایک صدی قبل تصانیف پڑھائی جاتی ہے ،انہوں نے ایک سبق میں لکھا ہے کہ دو آنے سے ڈاکخانے میں کھاتا کھولا جا سکتا ہے ،جبکہ اس دور میں آنے کا ہی وجود نہیں رہا ،ایک کتاب’’ حیات الحیوانات‘‘ ہے،سات سو سال قبل تصنیف شدہ علامہ دمیری کی اس کتاب کو عربی مدارس میں بڑا اعتبار حاصل ہے ،یہ کتاب علم حیوانات (zoology )پر اپنے وقت کی بڑی مرکۃ الآرای کتاب تھی ،لیکن جدید علم حیوانات (zoology) جو جدید سائنس کی ایک اہم شاخ ہے اس نے علامہ دمیری کی سیکڑوں تحقیقات کو غلط کو ثابت کر دیا ہے ، یہ سب پڑھنے کے بعدہمارے یہاں ڈگری عالم (اسکالر) کی دی جا تی ہے ، یہ ڈگری ہی بذات خود ایک طالب علم کو اعتماد سے پُر کر دیتی ہے ،یہ مانا کہ مدرسے کا فارغ مذہبی امور کا عالم کل ہے ،لیکن کیا ان امور مذاہب کا اطلاق اسی دنیا میں نہیں ہونے والا ہے ؟ تو پھر یہ کیوں ضروری نہیں کہ ایک عالم اسقدر دنیا بھی جا نے جس قدر اُمور مذاہب کے اطلاق کے لئے ضروری ہے،ورنہ تو پھر وہی ہو گا کہ آپ مدرسوں میں بیٹھ کر جز لا یتجزیٰ کے وجود کو باطل گردانتے رہیں گے اور دنیا کہیں آگے نکل گئی ہو گی ،ہم نے جز لا یتجزیٰ کی ایک مثال پیش کی ہے ،اس کے علاوہ بھی کئی ایسی
مثالیں ہیں کہ دینی مدرسوں میں نادانستہ ،حقائق سے پرے کی تعلیم دی جا رہی ہے ،اور ایسی مثالیں صرف فلسفہ اور منطق میں ہی ہوں، ایسا بھی نہیں ہے ،بلکہ ان علوم میں بھی ہے جنہیں خالص مذہبی علم گردانہ جاتا ہے ،ایسی خامیوں کو نشان زد کر کے ان میں سدھار پیدا کر نے کی ضرورت ہے ،ورنہ قوم کے یہ شاہین بچے جنہیں آج اُلٹا پاٹھ پڑھا یا جا رہا ہے جب آنکھ کھولینگے تو وہ آپ کو معاف نہیں کرپائینگے ،یہ الگ بات کہ آپ ان کی آنکھیں ہی نہ کھلنے دیں،ذرا سوچیں کہ کیا ہم نادانستہ طور پر قدیم تُرکی اور اسلامی اسپین کے علماء کی ڈگر پر تو نہیں جا رہے ہیں ،لکھا ہے کہ ترکی میں ’’شیخ الاسلام ‘‘ نے تلوار کے مقابلے سنگین (بندوق) کے استعمال کی اجازت نہیں دی تھی ،اور بڑے حیلے اور حجت کے بعد پریس لگانے کی اجازت اس شرط کے ساتھ دی تھی کہ اس میں قرآن کریم اور دیگر مذہبی کتابیں نہ چھاپی جا ئیں،لہذا قبل اس کے کہ ہم کو قدیم ترکی جیسے حالات سے سابقہ ہو وقت کی ہوا کے رخ کو سمجھ کر اس سے مقابلہ کر نے کی صلاحیت پیدا کر لینی چاہئے۔
کوئی سنے نہ سنے وقت کی آواز
پکا رنے کی حدوں تک توہم پکار آئے
یہ کام الگ الگ اداروں کا نہیں ہے
خیال رہے کہ یہ کام الگ الگ اداروں کا نہیں بلکہ اس کے لئے ایک ایسا تعلیمی بورڈ ہو نا ضروری ہے جو اس پر نظر رکھے کہ زمانے میں کیا کیا تبدیلیاں رو نما ہو رہی ہیں اور وہ اسی کے مد نظر ضروری تعلیمی نصاب مہیا کراتا رہے ،کیا آپ نہیں سمجھتے کہ اسی کمی کے سبب ہم اپنے طلبہ کو نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے یہ خلاف واقعہ تعلیم فراہم کر رہے ہیں کہ ایٹم کا وجود نہیں ہو سکتا جبکہ اہل دنیا نے اس کا وجود تسلیم کر
کے ایٹم بم بنا ڈالا ، ہم آپ کو ایک ایسا ہی بورڈ مہیا کر رہے ہیں جو آپ کو دنیا میں واقع ہو نے والی تبدیلیوں سے رو برو کرا تا رہے گا ،نیز جدید دور کا وہ مواد آپ کے طلبہ کو مہیا کرائیگا جو ایک عالم دین کے لئے جاننا ضروری ہے ،آپ بھی ہم سے جڑ ئے اور اپنے مدرسے کے طلبہ کو اپنے بنیادی نصاب تعلیم میں کسی طرح کا پھیر بدل کئے بغیرمین اسٹریم سے جوڑ ئے ،آپ کو نہ تو اپنا نصاب تعلیم بدلنے کی ضرورت نہ اور کسی طرح کی دیگر تبدیلی کی ،ہائی اسکول کے چھ اور انٹرمیڈئیٹ کے پانچ آسان مضامین مدرسوں میں پڑھنے والے محنت کے عادی طلبہ کے لئے کوئی مسئلہ نہیں ،ہفتے میں ایک دن اگر وہ صرف دو گھنٹے اس کام کے لئے نکال لیں تو منزل بہت آسان ہے ۔
عہد حاضر میں صحافت یا میڈیا
عہدحاضر میں میڈیا کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اس نے اس دور میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک غیر اعلانیہ جنگ چھیڑ رکھی ہے میڈیا جسے جمہوریت کا چوتھا ستون کہا جاتا ہے اس پر غیروں کابطورِ خاص اسلام دشمنوں کا قبضہ ہے پرنٹ میڈیا ،الکٹرانک میڈیا، اور سوشل میڈیا جہاں دیکھئے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف جھوٹے الزامات کا طوفان بدتمیزی بپاہے،جس کے ذریعہ اسلام کو بدنام کرکے اس کے بڑھتے قدموں کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے،صحافت میڈیا کا باب اول ہے، ہم نے اپنے بورڈ کے تحت بذریعہ اردو ہندوستانی زبان کی صحافت کا ایک سالہ کورس شروع کیا، اس میدان میں مدرسے کے طلباء آئینگے تو وہ اسلام کا بہتر دفاع کرسکیں گے آپ بھی صحافت کے اس نصاب تعلیم سے استفادہ کرکے میڈیا میں اپنی موجودگی درج کراسکتے ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کی بہتر خدمت کر کے ساتھ ساتھ اچھا روز گار بھی مہیا کرسکتے ہیں،عملی مشق کے لئے اس ادارے کی جانب سے اردو اور ہندی میں دو الگ الگ اخبارات جا ری کئے گئے ہیں ۔
کیا آپ اس بورڈ سے جڑ نا چاہیں گے ؟
’’سیکینڈری بورڈ آف مدرسہ ایجو کیشن ‘‘کانسٹی ٹیوشن آف انڈیا کی دفعہ ۲۹؍۳۰ کے تحت قائم ایک خود مختار ادارہ ہے جو نہ تو سرکار سے کسی طرح کی ایڈ حاصل کرتا ہے اور نہ ہی کسی طرح کا سرکاری دباؤ قبول کرتا ہے ، بورڈ کا مین آفس لکھنؤ میں ہے جس کا اپنا ذاتی دفتر ہے جس کو’’ مدرسہ تعلیمی بورڈ ‘‘کے کاموں کے لئے وقف کیا گیا ہے ، اس سے جڑ کر آپ کے ادارے میں کسی بھی طرح کا سرکاری عمل دخل نہیں ہوگا ،اور آپ کی خود مختاری کسی بھی طرح متأثر نہیں ہوگی ،اس سے الحاق کے لئے آپ کو کچھ ضروری خانہ پوری کرنی ہو گی جس کے بعد ہائی اسکول کے نصاب پر موقوف کتابوں کے چند سیٹ ادارے کو بھیجے جا ئینگے جن میں اردو ،ہندی ،انگریزی ،اور سوشل سائنس کے مضامین کی کتابیں این ،آئی ،او ،ایس کے طرز کی ہونگیں ،ایک کتاب خالص تاریخ کے موضوع پر ہوگی ،جس میں برصغیر پر مسلم دور حکومت کی بطور خاص تفصیل درج ہے ،ایک کتاب کمپیو ٹر کی معلومات پر بطور خاص اِن پیج اردو شامل ہو گی ،نیز کچھ تعلیمی مواد ایسا ہوگا جس میں ،آئین ہند کے کچھ مخصوص بنیادی قوانین ،تعزیرات ہند کی مختلف دفعات ،بحیثیت ایک شہری آپ کے بنیادی حقوق کی تفصیل کے ساتھ ساتھ تھانہ ،کورٹ ،کچہری سے متعلق معلومات ،عدلیہ ،مقننہ ،منتظمہ اور میڈیا کی معلومات آپ کے طلبہ کو مہیا کرائے گا ،اس کے علاوہ دعوتی نقطۂ نظر سے ہندوستانی مذاہب کا تقابلی مطالعہ ،اورعہد حاضر میں اسلام پر اٹھا ئے جا نے والے سوالات کے جوابات کی مشق پر موقوف مواد بھی مہیا کیا جا ئیگا، سر دست صرف ان ہی مضامین میں ہائی اسکول اور انٹر میڈئیٹ کرایا جا رہا ہے ،آئندہ کے منصوبوں میں ،سائنس اور حساب کی تعلیم بھی شامل ہے ،الحاق کے لئے صرف وہی مدرسے رجوع کریں جن کے پاس ہائی اسکول کے معیار کی بلڈنگ ہو نے ساتھ ساتھ کم ازکم درجہ چہارم عربی تک کی تعلیم ہے ،امتحانات سال میں دو بار منعقد کرائے جا تے ہیں ،الحاق کو باقی رکھنے کے لئے ہر سال کم ازکم پانچ طلبہ کے فارم موصول ہونا ضروری ہے ،جس ادارے کی جانب سے کم ازکم پچاس فارم بھرجا ئینگے اس کو بورڈ کی جانب سے ایک کمپیوٹر دینے کے ساتھ ساتھ جز وقتی کمپیوٹر ایکسپرٹ مہیا کیا جا ئیگا تاکہ وہ مدرسے میں چند دنوں قیام کر کے طلبہ کو کمپیوٹر اور انٹر نیٹ کی معلومات دے سکے اور نیٹ و میڈیا کی دنیا میں اسلام کے خلاف ہو رہی سازشوں کو بے نقاب کر نے کی ٹریننگ دے سکے ۔
اپنی تاریخ کم سے کم اپنے بچوں کو ہی پڑھائیے
کیا آپ جا نتے ہیں کہ سرکاری اسکولوں میں دس سال پہلے تک چھٹی ،ساتویں ،اور آٹھویں تینوں کلاس میں جو تاریخ پڑھائی جا تی تھی ،وہ صرف اور صرف دنیا میں مسلمانوں کے اقتدار کی تاریخ تھی ،جسے اب محض آٹھویں کلاس کے صرف ایک سبق میں سمیٹ دیا گیا ہے ،یہی حال جنگ آزادی میں مسلمانوں کے کردار کو لے کر ہے ،سرکار کی نگرانی میں تیار ہونے والے نصاب تعلیم سے مسلمانوں کے کردار کو نظر انداز کیا جا رہا ہے ،ایسے میں کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ اپنے آبأ و اجداد کی تاریخ کو ہم کم ازکم اپنے طلبہ کو تو پڑھائیں ، یہاں یہ سوال ہو سکتا ہے کہ کسی بورڈ سے جڑ نا ہی ہے تو کیوں نہ سرکار ی مدرسہ بورڈ یا اوپن اسکولنگ بورڈ سے جڑا جا ئے ،لیکن وہاں آپ کو نہ تو اپنی تاریخ ملے گی اور نہ اسلامیات سے ہم آہنگ دیگر جدید مواد ہوگا ،بلکہ اس کا تیار کردہ مواد یا تو دہریت پر مبنی ہو اور یا سنگھی منصوبے کی تکمیل کر نا والا بھگوا رنگ میں ڈوبا ہوا ہو گا ،ساتھ ہی آپ کی آزادی کو الگ متأثر کرے گا ،لہٰذا یہ ضروری ہو جا تا ہے کہ اسلامی مدرسوں کا ایک بااختیار تعلیمی بورڈ ہو جو سرکردہ علمأ دین کی نگرانی میں کام کرے اور رعصری تبدیلیوں پر نظر رکھے اور اور ضروری جدید تعلیمی مواد متعلقہ مدارس کو فراہم کراتا رہے ، تو پھر آج ہی مندرجہ ذیل پتے پر رابطہ کر کے اپنے ادارے کا رجسٹریشن کرائیں۔
سیکنڈری بورڈ آف مدرسہ ایجوکیشن ،۸ یونیورسل کامپلیکس ،فرسٹ فلور ،لال باغ لکھن�ؤ۔فون،فیکس 0522-2233944 8392819216 -7409062400 -7060758823 - 9359351921 Mobile Number:
تأثرات
مفتی محمد اکرام قاسمی
یہ خیالات ڈاکٹر محمد اسلم قاسمی کی فکری کاوشوں کا نتیجہ ہیں ،محترم ڈاکٹر صاحب نے دینی وعصری درسگاہوں سے بھر پور اِستفادہ کیا ہے ،اُنہیں دونوں طرح کی درسگاہوں کو بہت قریب سے دیکھنے اور پرکھنے کا موقع ملا ہے ،دونوں جانب نہ مکمل خوبیاں ہیں اور نہ ہی مکمل خرابیاں ،دونوں طرف کچھ خامیاں ہیں تو خوبیاں بھی ہیں ،ڈاکٹر صاحب موصوف کا یہی نقطۂ نظر رہا ہے کہ ’’خُذ مَا صَفا وَدَع مَا کَدِر‘‘کے مطابق خوبیوں کو اپنا کر ہی ایک صالح معاشرہ وجود میں آسکتا ہے ،موصوف کے قدرے تیکھے لب ولہجہ پر نہ جا ئیں کہ اسمیں بھی قومی فلاح وبہبود کا جذبہ مخفی ہوتا ہے ،اسلئے’’ اِنّما الاَعمَالُ بِالنیات ‘‘کا اعتبار کرتے ہو ئے موصوف کے خیر خواہانہ مشورے پر غور کریں اور ’’مدرسہ تعلیمی بورڈ ‘‘سے الحاق کے متعلق مثبت جواب دیتے ہو ئے ایک صالح اور مفید معاشرے کی تشکیل میں حصہ لیں ،بلحاظ ’’اِستِبدال بِالاِصلاح ‘‘اپنی علمی رائے بھی دیں ،نصاب تعلیم کے متعلق غور کر کے فیصلہ کریں اگر ہو سکے تو ’’مدرسہ تعلیمی بورڈ ‘‘ کے نصاب کو اپنے نصاب تعلیم کا حصہ بنائیں اور نظام الاوقات میں جگہ دیں ،اس لئے کہ ہمارے یہاں خارجی مطالعہ کو زیادہ اہمیت نہیں دی جا تی ،اگر خارجی مطالعہ میں ہی رکھنا چاہیں تو بھی اس کے لئے وقت کی تعیین ضرور کردیں ۔
( مفتی )
محمد اکرام قاسمی
No comments:
Post a Comment